پاکستان میں مہینو ں سے چلا آرہا ڈارمہ اختتام پذیر ہوا لیکن یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس ڈرامے کا انجام طربیہ ہے یا المیہ۔ کیونکہ ایک مقدمے کے دو فریق اپنے اپنے طور پر اپنی فتح یا اپنی ہٹ دھرمی کا ڈنکا پیٹ رہے ہیں ۔ ریمنڈ ڈیویس جس پر قتل اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا الزام تھا و ہ آخر کو تمام الزاما ت سے بری ہوکر شان و شوکت کے ساتھ پاکستان سے سر خرو ہو کر اپنے وطن مالوف کو گیا یا کہا ں جلوہ گر ہے یہ پاکستانی حکومت کو بھی معلوم نہیں ۔کیونکہ ریمنڈ ڈیویس کی رہائی کے بعد طرح طرح کی خبریں آرہی ہیں ۔ ایک خبر یہ ہے کہ ایک جانب کورٹ میں خون بہا کے معاملات طے ہورہے تھے اورد وسری جانب ریمنڈ کے لیے ہوائی جہاز پرواز بھرنے کو تیار تھا۔ کورٹ کے آناً فاناً فیصلے کے بعد ریمنڈ رخصت ہوگئے ۔لیکن خون بہا لینے والے افراد خانہ اپنے غریب خانوں سے غائب ہیں ۔ ریمنڈ ڈیوس کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے فیضان اور فہیم کے ورثا کے گھروں پر تالے لگے ہیں اور ان کے محلے والوں کے مطابق منگل کی دوپہر کے بعد سے ان کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ہمسائیوں اور رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اگر ورثا نے رقم لیکر امریکی شہری کو معاف کیا ہے تو وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔اور اپنے محلے میں ان کی سکونت کو پاکستان کے لیے باعث نحوست سمجھتے ہیں ۔ یہ وہی پڑوسی ہیں جنھوں نے ان کے خاندان اور اہل و عیال کو مصیبت کی گھڑی میں دلاسہ دیا تھا اور قاتل کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش رہے تھے ۔ مگر خاموشی سے خون بہا لے کر معاف کرنے کی یہ ادا اور پاکستانیوں کی طرح انھیں بھی پسند نہیں ہے کیونکہ ڈالر کی کھنک دو خاندان کو مالامال تو کرسکتی ہے لیکن پاکستانی قوم کی غیرت و حمیت پر جو داغ آیا ہے وہ کبھی دھل نہیں سکتا۔
ویسے ریمنڈ ڈیویس کا معاملہ اتنا سیدھا سادہ بھی نہیں تھا اور نہ کسی کو اس بات کا یقین تھا کہ ریمنڈ پر کوئی سخت کاراوئی ہوسکتی ہے کیونکہ امریکہ نے اپنے ایک شہری کے لیے جو واویلہ مچایا تھا وہ سب کو معلوم ہے اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ پاکستان امریکہ کے احسانات کے بوجھ تلے ایسا دبا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتا ۔سب کو معلوم تھا کہ پاکستان کی سیاست جو عرف عام میں ڈیل کی سیاست کہی جاتی ہے وہ اس معاملے میں بھی کوئی نہ کوئی ڈیل ضرور کرے گی ۔لیکن اس ڈرامائی انداز سے ڈیل ہوگی اس کا ندازہ شاید کم لوگوں کو ہی رہا ہوگا۔ حالانکہ کچھ وکلا نے اس کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کہیں راتو ں رات ریمنڈ کو فرار نہ کرا دیا جائے ۔ لیکن فرار تو نہیں کرایا گیا بلکہ باعزت طریقے سے رہائی کا راستہ نکالا گیا اور وہ بھی سعودی حکومت کے توسط سے۔بات امریکی شہری کی ہے تو معاملہ بھی اس کے شایان شان طے ہونا تھا ۔ لہٰذا شرعی طریقے کو اپناتے ہوئے اس مقدمے کافیصل ہوا۔ رہی بات شرعت کی تو اس معاملے میں کسی کی زبان نہیں کھل سکتی ۔لہٰذا سب لوگ اس طریقے فیصل پر کچھ بولنے سے قاصر ہیں ۔ لیکن جس انداز سے کیا گیا اس پر اپنی تشویش کا اظہار کر ررہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتولین کے ورثا سے جبراً دستخط کرائے گئے ۔اس کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ ان کے ایک وکیل کو ان معاملات سے دور رکھا گیا جیسا کہ مقتولین کے ایک اور وکیل اسد منظور بٹ نے الزام لگایا ہے کہ انہیں بدھ کو جیل کے اندر ہونے والی کارروائی میں شامل نہیں ہونے دیا گیا اور انہیں ان کے ایک ساتھی وکیل سمیت ساڑھے چار گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔لیکن دوسری جانب مقتولین کے ایک وکیل راجہ ارشاد نے کہا کہ امریکی حکام نے مقتولین کی ورثا کو بیس کروڑ روپے بطور دیت ادا کیے ہیں اور یہ رقم تمام ورثا میں قانون کے مطابق تقسیم ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتولین کے اٹھارہ ورثا عدالت میں پیش ہوئے تھے۔دوسری خبر یہ بھی ہے کہ ایک وارث کو رقم کی کمی کی شکایت کے بعد اسے بائیس کروڑ دئے گئے ۔ اور بڑی خبر یہ ہے کہ انھیں امریکی شہریت سے بھی نواز اگیا ہے ۔بات یہ ہے کہ اس صلح کے بعد صلح کرانے والوں اور صلح کرنے والوں ، دونوں کو یہ اندازہ تھا کہ اس کے بعد پاکستان کی سرزمین میں رہنا ان کے لیے مشکل ہوجائے گا اور زندگی گزارنے کے لیے اتنی رقم کافی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے وطن کو بھی خیرآباد کہنے میں جھجک محسوس نہیں کی ۔ جس زمین میں یہ مقتولین دفن ہیں ان کی بھی پراوہ نہیں کی گئی ۔بات صرف اتنی ہے کہ روپوں پر تو دنیا بکتی ہے اگر یہ دو خاندان بک گئے تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ لیکن اس کا سودا کرانے والوں پر حیرت ہوتی ہے۔
لیکن اس ڈرامے میں تجسس کا ایک اور سین بھی ہے جس میں کوئی فرد یہ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سامنے نہیں آیا کہ اس کی وجہ سے یہ سارا معاملہ طے ہوا ہے ۔ ادھر رقم ادا کرنے والی پارٹی بھی کھلے عام یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے ا س رہائی کے لیے کوئی رقم نہیں ادا کی ہے ۔امریکی سفارتخانے امریکی سفیر کیمرون منٹر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ مقتولین کے ورثا نے ریمنڈ ڈیوس کو معاف کردیا ہے۔ ’میں اس عمل پر ورثا کا شکر گزار ہوں۔ میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ امریکی محکمہ انصاف نے ریمنڈ ڈیوس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ مقتولین کے ورثا نے عدالت میں پیش ہو کر انہیں معاف کر دیا جس کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس صلح میں پنجاب حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے اور ملزم کو معاف کرنا ورثا کا شرعی اور قانونی حق ہے۔صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان کا کہنا تھا کہ یہ بات بے بنیاد ہے کہ مقتولین کے ورثا سے زبردستی دیت کے کاغذات پر دستخط کروائے گئے ہیں۔ حالانکہ یہ اس سین میں تجسس کا کوئی پہلو اس طور نہیں نکلتا کہ آج کی عوام بہت باخبر ہے اور وہ معاملات کی باریکیو ں کو بھی خوب اچھی طرح سمجھتی ہے۔
اب اس ڈرامے ایک اہم پہلو جو پاکستان کے لیے پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ ریمنڈ کی رہائی کے بعد سے پاکستان میں ڈرون حملے تیز ہوگئے ہیں ۔ ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد سے کچھ دنوں تک ڈرون حملے تقریباً بند تھے مگر اچانک اس کی رہائی کے بعد سے جس انداز سے قبائلی علاقوں پر حملے تیز ہوگئے ہیں اس پر ہر جانب سے رد عمل سامنے آرہا ہے ۔گرینڈ جرگے کے رہنما ملک جلال الدین ، ملک فریداللہ، ملک نیک دراز اور دیگر نے جمعہ کو پشاور پریس کلب میں اخباری کانفرنس میں کہا کہ گزشتہ روز میران شاہ کے قریب دتہ خیل کے مقام پر پہاڑ کی ملکیت کے حوالے سے ایک جرگہ منعقد ہو رہا تھا جس پر امریکی جاسوس طیاروں نے حملہ کیا اور اس میں بے گناہ چوالیس افراد ہلاک اور سینتالیس زخمی ہوئے ہیں۔ملک جلال الدین نے کہا کہ وہ اس کانفرنس میں وزیرستان کے تمام قبائل کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہاں وہ قبائل کی جانب سے امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے’اپنے پیاروں کو امریکیوں پر فدائی حملے کرنے کی اجازت دے دی ہے‘۔پاکستان نے امریکہ سے شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں ڈرون حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر احتجاج کیا ہے۔اس سلسلے میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور اُن سے اس واقعہ پر شدید احتجاج کیا گیا۔ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے شمالی وزیرستان میں ہونے والے تازہ ڈرون حملے کی مذمت کی ہے۔ایک پریس ریلیز میں فوجی سربراہ نے کہا کہ ’یہ انتہائی افسوناک ہے کہ پر امن شہریوں کے جرگے کو جس میں علاقے کے بزرگ بھی شامل تھے انتہائی لاپرواہی اور سخت دلی سے نشانہ بنایا گیا‘۔حکومتی سطح کے ان بیانات کے ساتھ ساتھ عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ رہی ہے اور کئی شہروں میں ان کے خلاف احتجاج بھی ہورہے ہیں ۔کچھ لوگ اس حملے کو ریمنڈ سے بھی جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ ڈرامے کے اس سین کے بارے ابھی کچھ زیادہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ ابھی مکمل پیش نہیں ہوا ہے ۔ اس لیے اسے ڈالر اور ڈرون کے اس ڈرامے کے انجام ابھی سامنے آنا باقی ہے۔
Check Also
یہ دن دورنہیں
امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …