ہندستان اور پاکستان کے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ لیکن 26/11حادثہ کے بعد ہندستان میں جو کشیدگی اور غم وغصہ کی فضا پیدا ہوئی، اس نے دوستی اور محبت کے تمام رنگوں کو فراموش کردیا۔ ایک حقیقت اور بھی ہے کہ پاکستان سے دوستی رکھنے والی نسل اب یا تو نہیں ہے، یا اگر ہے تو وہ اتنی بوڑھی ہوچکی ہے کہ سرحدوں کی دشمنی سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جو بعد کی نسلیں ہیں، انہوں نے پاکستان سے خود کو دور یا علیحدہ کرلیا ہے۔ اور جو نئی نسل ہے، وہ پاکستان کے نام سے بیزار ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود ایک بڑا سچ یہ بھی کہ کبھی یہ دونوں ملک ایک تھے۔ نئی نسل کے بچے بھی تاریخ کی کتابوں سے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن پاکستان سے کسی بھی طرح کے جذباتی رشتے کو فضول کی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان دیگر ممالک کی طرح ہی ایک ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے فدائین بھیج کر یہاں کے امن وسکون کو غارت کرتا رہتا ہے۔ دونوں ملکوں کے سیاسی منظرنامہ نے آزادی کے ۶۶ برسوں میں عوام کو بھی ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔
نواز شریف کے آنے سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید دونوں ملکوں کے تعلقات پھر سے بحال ہوجائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم رشتہ پر پڑی ہوئی اس گرد کو دھونے میں کامیاب ہوں گے جس نے برسوں سے دوستی کے رشتے کو دھندلا کردیا ہے—
مشہور ناول نگار جوناتھن سوئفٹ کی شہرہ آفاق کتاب گولیورس ٹریول کے آخر میں جب گولیور گھوڑوں کے دیس پہنچتا ہے تو گھوڑے اپنی جسمانی ساخت سے انسانی جسم کا موازنہ کرتے ہوئے گولیور کا مذاق اڑاتے ہیں— کہ کہاں تم اور کہاں ہم— ذرا اپنا جائزہ لو اور ہمیں دیکھو—
گھوڑوں کے دیس میں گولیور نے کیا محسوس کیا، اس پر بحث کا وقت نہیں ہے۔ لیکن گھوڑے سے کم ترین یہ بے حد پر اسرار انسان جنگوں کے سائے میں لہو کی کھیتیاں کرتا ہوا آج کہاں پہنچ گیا ہے، یہ کسی سے بھی چھپا نہیں ہے— کاش کہ آج سوئفٹ زندہ ہوتے تو وہ گھوڑے جیسے شریف جانور سے اس ذلیل انسان کا موازنہ نہیں کررہے ہوتے۔ انسانی لہو پی پی کر اس آدم خور انسان نے آج اپنے لیے جو راستہ اختیار کر لیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے تاریخ کے اوراق بھی شرمندہ ہیں—
دو عالمی جنگیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں۔ ملک کی آزادی اور تقسیم سے پہلے بھی لہو کا ایک اُبال آیا تھا۔ انگریزوں کے جاتے جاتے فرنگی آتش بازیاں اپنا کام کر گئی تھیں— خون، ہندو اور مسلمان بن گیا تھا۔ خون بے دردی سے بہہ رہا تھا۔ گلیوں میں، سڑکوں پر اور چوراہوں پر— آنکھوں میں نفرت پیدا ہو رہی تھی اور انسان ایک دوسرے انسان کے لہو کا پیاسا بن گیا تھا۔
آزادی کے ۶۶ برسوں میں کبھی مندر مسجد، کبھی کشمیر کی آزادی کو لے کر دنگے کی کھیتیاں ہوتی رہیں۔ کبھی فرقہ واریت کے رتھ، کبھی بھاگل پور کے انسانی لہو سے بھرے کنویں،کبھی ۶ دسمبر، کبھی سلگتا ہوا گجرات اور جلیاں والا باغ کی یاد دلاتے رہے ۔ آنکھوں میں محبت اور دوستی کا احساس آتے آتے ٹھہر جاتا— خوشبو دور دور تک قافلوں کے ساتھ سفر کرتی ہوئی اداس ہوجاتی ۔ محبت کے نغمے دو دلوں کو پاس پاس لانے تک رک جاتے اوردو ملکوں کی دوستی کی بس چلتے چلتے اچانک باد خزاں میں کھو جاتی۔
کرگل کا زخم بھر انہیں کہ ہم نے اندر کی نفرتیں جوڑ کر جنگوں کی میزائلیں ایک دوسرے کی جانب تان دیں— سرحدیں بارود الگنے لگیں، نفرتوں کے تار کھنچ گئے۔ لیکن ، کیا سچ مچ ہندوستان یا پاکستان کے لوگ جنگ چاہتے ہیں؟
جنگ کسی کو قبول نہیں۔کچھ سال قبل لاہور یونیورسٹی کے تاریخ پڑھنے والے بچے جب ہندستان آئے تو ان کے چہرے جوش اور ولولوں سے دمک رہے تھے۔ ایسے کچھ بچوں سے ملنے کا اتفاق ہوا تو وہ دوستی محبت کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
’’ہندستان کیسا لگا؟‘‘ میں نے ایک بچی سے پوچھا۔
جواب تھا۔ ’’تاج محل کی طرح حسین‘‘۔
’’اور جو، یہ دونوں ملکوں کے درمیان نفرتیں پل رہی ہیں۔؟‘‘
بچی کا لہجہ فکر میں ڈوبا تھا۔ ’’ہم آپس میں ملنا چاہتے ہیں۔ فاصلے کم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘
’’ممکن کیوں نہیں ہے۔ اب یہ دبائو ہمیں بڑھانا ہوگا۔ تم لوگوں کو— تم جو تاریخ کے طالب علم ہو اور میں جو کہانیاں لکھتا ہوں—‘‘
’’کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
اس معصوم سی پاکستانی لڑکی کا چہرہ اب بھی میری آنکھوں میں بسا ہوا ہے— کچھ سال قبل تک مجھے چینلس پر دکھایا جانے والا، ارسٹو کریٹ (شراب) کا اشتہار یاد آتا ہے۔ سرحد ہے۔ تار کے باڑ ہیں۔ ایک طرف ہندستان کا ایک سپاہی ہے اور دوسری طرف پاکستان کا۔ رات کے آٹھ بجے ہیں۔ میزائلیں جھکا دی گئی ہیں۔ ہندستانی افسرار اسٹوکریٹ کی بوتل کھولتا ہوا پاکستانی افسر کی طرف دیکھتا ہے۔ پاکستانی افسر پہلے ’نا‘ میں گردن ہلا تا ہے۔ پھر اثبات کے طور پر مسکراتا ہوا اپنا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ سرحدیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ شراب کے جھاگ مسکراہٹوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور محبت سرحد کے تار، نفرتوں کے باڑ، سب کچھ بھلا کر ایک ناقابل فراموش جذبہ بن جاتی ہے—
کیا یہ صرف ایک اشتہار تھا؟
کیا یہ اشتہار دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے دیکھاتھا؟
پیس مشن پر پاکستان سے آئے ہوئے ادیبوں، دوستوں، دانشوروں سے آئے دن ملاقات ہوتی ہے۔ میں نے ان سب کی آنکھوں میں بس ایک ہی پیغام پڑھا ہے۔ محبت کا پیغام!
نواز شریف جب دوسری بار جیت کر آئے تھے تو اس کامیابی میں ایک بڑا ہاتھ اس وعدے کا بھی تھا جہاں پاکستانی عوام سے یہ کہا گیا تھا کہ ہم ہندستان سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں گے— اور ہندستان سے محبت اور دوستی کی خواہشمند عوام نے اپنے محبوب کو کامیابی سے نواز دیا تھا— نواز شریف اب دو بارہ واپس آئے ہیں تو تعلقات کے بحال ہونے کی امید جاگتی ہے لیکن سرحدوں پر پاکستان کی گھس پیٹھ دیکھ کر یہ خیال کمزور ثابت ہوتا ہے کہ کبھی دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار بھی ہوسکتے ہیں۔
کیا ہندستان بھی اب دوستی کا خواہشمند نہیں رہا؟
کیا پاکستانی عوام کے دل بدل گئے ہیں؟
ایک پرانی بات یاد آگئی۔ عرصہ ہوا پاکستان سے مشہور مصور ال حسین ہندستان تشریف لائے۔ رفیع مارگ، آرٹ گیلری میںان کی بنائی گئی تصویروں کی نمائش ہوئی۔ اس موقع پر دلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے بھی شرکت فرمائی۔ حسین پاکستان لوٹنے سے قبل تصویر کا ایک تحفہ مجھے بھی دے گئے۔ یہ تصویر بہت دنوں تک میرے ڈرائنگ روم کا ایک حصہ رہی ہے۔ اور اس خوبصورت پینٹنگ میں جو ناتھن سوئفٹ کے دو گھوڑے ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔
’یہ گھوڑے کون ہیں؟‘ میں نے حسین سے جاننا چاہا۔
’’خوشحالی اور امن کی علامت‘‘ حسین کے لہجے میں درد تھا۔
’’یہ گھوڑے کہا ںکے ہیں؟‘‘
حسین کی بڑی بڑی آنکھیں میری آنکھوں میں پیوست ہوگئیں—’ ان میں ایک ہندستان ہے۔ اور دوسرا پاکستان۔‘
’اور تعجب یہ ہے کہ دونوں گلے مل رہے ہیں۔‘
حسین نے میرے اندر کا درد محسوس کر لیا تھا—
میں نے پھر کہا تھا۔’ کتنی عجیب بات ہے حسین بھائی۔ ذرا سوچئے۔ بٹوارہ صرف ملک کا نہیں کا ہوا۔ محبت اور مغل اعظم کا بھی ہوا— اکبر، آگرہ میں رہ گیا، انار کلی کو آپ لاہور لے گئے۔ غالب ہم نے رکھ لیا۔ اقبال آپ کا ہوگیا—‘‘
’’لیکن اب یہ گھوڑے گلے مل رہے ہیں۔‘‘
میں نے دیکھا حسین کی آنکھوں میں آنسو جھل مل، جھل مل کررہے تھے۔
حسین واپس پاکستان چلے گئے۔
وہ پینٹنگ اب بھی میرے پاس ہے۔
وہ دونوں گھوڑے اب بھی ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم لکھنے والوں کا مذہب، ملک اور سرحدوں سے الگ ہوتا ہے— پاکستان سے ہمارا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ ہماری کتابیں، ہماری کہانیاں وہاں شائع ہوتی ہیں اور وہاں کے پڑھنے والے ہمیں عزیز رکھتے ہیں۔
جنگ کے سائے میں ہمارے جذبے بھی کھو جاتے ہیں۔ ہمیں ان جذبوں کی گمشدگی گوارہ نہیں—
ہم محبت میں خونی سرحدوں کے قائل نہیں ہیں۔
اور وہ وقت آگیا ہے۔ جب ہم چیخ چیخ کر دونوں ملکوں کے رہنمائوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ— ہم جنگ نہیں چاہتے—
معاملہ کتنا بھی آگے کیوں نہ بڑھ جائے، مسئلہ کے حل کی کتنی کنجی ہمیشہ رہتی ہے۔ آگے بڑھ کر صرف اس کنجی کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔
آئیے سب مل کر اس کنجی کو تلاش کریں۔
اور سر حد پر محبت کی خوشبو بکھیر دیں—
9310532452
zauqui2005@gmail.com