Home / Socio-political / یوپی اسمبلی الیکشن اور مسلمان: عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھِیں آشیانوں میں

یوپی اسمبلی الیکشن اور مسلمان: عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھِیں آشیانوں میں

عابد انور

ےوپی اسمبلی انتخابات کی تارےخ بہت قرےب آگئی ہے اگلے ہفتے سے ووٹنگ کا عمل شروع ہوجائے گا۔ اس لئے سےاسی پارٹےوں نے وعدوں کا ابنار لگا دےا ہے۔ سےاسی پارٹےوں کے پٹارے سے وعدے کے نکلنے کا اےک لا متناہی سلسلہ ہے۔ اسی کڑی مےں جہاں بی جے پی نے اپنے پٹارے سے پانچ سال مےں اےک کروڑ نوکرےوں کا لالی پاپ دےا ہے وہےں کانگرےس نے نوکری، مسلمانوں کو رےزروےشن اور دےگر پسماندہ طبقات کی فلاح بہبود کے علاوہ ترقی پر زور دےا ہے۔ کانگرےس پارٹی گزشہ ۲۲ برسوں سے ےوپی مےں اقتدار سے باہر ہے۔کانگریس پارٹی نے اتر پردیش پردیش اسمبلی کے انتخابات کے لئے انتخابی منشور جاری کیا ہے۔ اس مےں ریاست کی ترقی ، روزگار میں اضافہ اور سماجی انصاف کا خاکہ پےش کےا گیا ہے۔ اسے 11 بڑے شہروں میں سے ایک ساتھ جاری کیا گیا۔ اس مےں وعدہ کےا گےا ہے کہ کانگریس کے اقتدار میں آنے پر پانچ سال میں 20 لاکھ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائےں گے۔ اس انتخابی منشور مےں نو چےزوں پرسب سے زےادہ زور دےا گےا ہے۔ےہ نو چےزےں ےہ ہےں۔ روزی روٹی اور روزگار ، مساوات اور احترام ، تحفظ ، شفاف اور جواب دہ حکومت ، بجلی پانی ، سڑک ٹرانسپورٹ ، تعلیم کا حق اور ں جدید ٹیکنالوجی ، صحت کی سہولیات ، غذائی خوراک ، ترقی یافتہ شہر ، قصبے اور گاو

۔کانگریس نے اس مےں مزےد کہا ہے کہ وہ چھوٹے کاروبار کے لئے سازگار ماحول بنائے گی اور 40 مضبوط صنعتی سےکٹروں کی تعمیر کرے گی۔ ان میں ہینڈ لوم ، بنائی ، قالین ، مٹی کے برتن ، پرنٹ اور عطر ، تالا انڈسٹری شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی انصاف میں دلت اور پسماندہ طبقوں کو بااختیار کی بات بھی کہی گئی ہے۔اس انتخابی منشور مےں ایک نئی بات یہ کہی گئی ہے کہ دیگر پسماندہ طبقوں کے کوٹے میں سے انتہائی پسماندہ ذاتوں کو کوٹہ دینے کی سمت میں کام کیا جائے گا۔اس منشور میں جن دےگر باتوں پر زور دیا گیا ہے ان مےں پنچایت انتخابات میں خواتین کو 50 فی صد ریزرویشن ، ریاست میں اگلے پانچ سالوں میں پانچ لاکھ ملازمتوں کا بندوبست اور پسماندہ طبقہ کے لیے 4.5 فےصد ریزرویشن کا وعدہ کیا گیا ہے۔ کانگرےس نے اس مےں کہا ہے کہ اگر ریاست میں کانگریس کی حکومت آتی ہے تو خواتین کے ساتھ بڑھنے والے جرائم سے نمٹنے کے لئے ہر ضلع میں ایک خاتون پولیس تھانہ بھی ہوگا اور ایک خاتون پولیس افسر کا بھی انتظام ہو گا۔ اس کے علاوہ اترپردیش میں تعلیم کے میدان میں بڑے قدم اٹھانے کی ضرورت کے طور پرہر گاوں میں ایک سکول کھولنے کا بندوبست کےا جائے گا۔ جبکہ 25000 خاندانوں کے درمیان ایک انٹرمےڈےٹ کالج کے قیام کے ساتھ ہی ریاست میں 500 ماڈل سکول بنائے جائیں گے۔

ےوپی اسمبلی انتخابات مےں درجنوں پارٹےاں مےدان عمل مےں ہےں۔ لےکن اس بار مےڈےا کا فوکس اےک پارٹی پر بہت زےادہ ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی مےڈےا نے کسی مسلمانوں کے ذرےعہ چلائی جانے والی پارٹی پر زورنہےں دےا تھا لےکن اس بات ان کی تمام سرگرمےوں کو کورر کررہا ہے اور عوام تک پہنچا رہا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ مےڈےا کس کے اشارے پر کر رہاہے۔مےڈےا اس سے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے ۔ اس بار ےوپی کسی کے لئے آسان نہےں ہے۔ ۷۰۰۲ مےں ےوپی کے عوام نے ملائم حکومت سے نجات پانے کے لئے مایاوتی کو متبادل کے طور پر منتخب کیا تھا اور اسی طبقہ کی حمایت سے بی ایس پی کاووٹ 25 فیصد سے بڑھ کر 30 فیصد ہو گیا تھا اور اسمبلی انتخابات مےں واضح اکثریت حاصل کی تھی۔ جبکہ سماج وادی پارٹی کا ووٹ 25 فیصد سے آدھا فیصد بڑھا پھر بھی ان کی نشستیں کم ہوکر 100 سے کم رہ گئی۔2007 سے موازنہ کریں تو اقلیتی مسلم فرقے اب پہلے کی طرح ملائم کے ساتھ نہیں ہےں کئی بڑے مسلم لیڈر سماج وادی پارٹی کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں لیکن مسلمان بی ایس پی سے بھی مطمئن نہیں ہےں۔ پسماندہ مسلمانوں کو ریزرویشن کا فائدہ دے کر کانگریس نے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی دونوں کا حساب کتاب بگاڑ دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق اتر پردیش کے 12 کروڑ ووٹروں میں تقریبا 25 فیصد (چار کروڑ سے زیادہ) 18 سے 30 سال کے درمیان کے نوجوان ہیں۔ ان میں سے تقریبا 53 لاکھ وہ ووٹر جو 18 سال کے ہیں اور پہلی بار ووٹنگ کریں گے۔ اس حساب سے تمام سیاسی جماعتوں کے لئے نوجوان ووٹروں کو لبھانا بڑا مشکل کام ہوگا۔نوجوان طبقہ دلفرےب نعروں سے سےاسی پارٹےوں کے جھانسے مےں آنے والے نہےں ہےں۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو اتر پردیش کی 403 رکنی اسمبلی میں صرف 22 نشستیں ملیں تھیں۔کل ووٹوں میں کانگریس کی حصہ داری صرف نو فیصد تھی۔ اس نو فیصد میں امیدواروں کا نجی ووٹ زیادہ تھا اور پارٹی کا بنیادی ووٹ بینک بھی۔اگر نہرو جی کے زمانے کو یاد کریں ، تو کانگریس کا ووٹ تقریباً 50 فیصد ہوا کرتا تھا۔1989 میں جب کانگریس اتر پردیش میں اقتدار سے باہر ہوئی ، اس وقت بھی کانگریس کو 28 فیصد ووٹ ملے تھے۔ان 20 سے 22 سالوں میں کانگریس کا تقریباً 20 فیصد ووٹ کھسک گیا۔ ان میں دلت اور مسلمانوںکے علاوہ اعلی ذاتوںکے ووٹ بھی شامل ہیں۔زمینی حقیقت یہی ہے کہ اتر پردیش میں اقتدار میں واپسی کی بات تو دور ہے کانگریس پارٹی کو چوتھے نمبر سے تیسرے نمبر پر لانا بھی ایک مشکل اور چیلنج بھرا کام ہے۔اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات کے چوطرفہ مقابلے میں حکومت بنانے کے لئے کم سے کم 30 فیصد ووٹ چاہئے اور اسمبلی انتخابات میں مقامی مسائل اور کارکنوں کے کردار کی بڑی اہمےت ہوتی ہے۔ راہل گاندھی کا اصل چیلنج یہ ہے کہ دو سال بعد لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہ 2009 کے انتخابات میں جو امنگ پیدا کر پائے تھے ، وہ اب نہیں رہی۔اگر اگلے اسمبلی انتخابات میں وہ اتر پردیش میں کانگریس کو باعزت نشستیں نہیں دلا پاتے ہیں ، تو اس سے ان کی قیادت کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اس بار ےوپی اسمبلی انتخابات کی خاص بات ےہ رہی ہے کہ تمام پارٹےوں نے دلفرےب وعدوں کا پٹارا کھولاہے۔ جہاں سماج وادی پارٹی نے لےپ ٹاپ اور دےگر چےزوں کے علاوہ مسلمانوں کے لئے خوشنما وعدے کئے ہےں وہےں کانگرےس نے بھی مسلمانوں کو ۹ فےصد کے قرےب رےزروےشن دےنے کا وعدہ کےا ہے اور ہمہ جہت ترقی کی بات کی ہے۔ سماج وادی پارٹی اور بی اےس پی اقتدار کی رےس مےں ہے امکان ےہی ہے کہ کانگرےس کی حماےت سے سماج وادی پارٹی کی حکومت بنے گی۔مسلمانوں کو الجھانے اور ووٹ تقسےم کرنے کی پوری تےاری ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کو ہوشےار رہنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔اس کی تلافی کرنے والا پھر کوئی نہےں ہوگی ۔ ےہ وہ انتخاب ہے جو ۴۱۰۲ کی سمت کو طے کرے گا۔اس لئے مسلمانوں پر زےادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔جذبات کے بجائے ہوش کا استعمال کرےں۔ ان کے پاس محدود متبادل (آپشن) ہےں۔ مسلمانوں کو بدترےن مےں سے بدتر کا انتخاب کرنا ہے۔ فرقہ پرستوں کی کامےابی آپ کی تباہی کا آغاز ہوسکتی ہے۔

مسلمانوں کو ےوپی اسمبلی انتخابات مےں کس پارٹی کو ووٹ دےنا اور کس کو نہےں ، ےہ فےصلہ کرنے سے پہلے ےہ اچھی طرح ذہن نشےن رکھنا چاہئے کہ ےوپی مےں سماج وادی پارٹی برسراقتدار آئے، ےا بی اےس پی، کانگرےس آئے ےا بی جے پی ،اترپردےش کے ہندوﺅں کو کوئی فرق نہےں پڑتا لےکن مسلمانوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ ان کی ذرا سی بھول پانچ برس ہی نہےں اےک لمبا عرصہ تک ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو ےہ بھی سوچنا چاہئے کہ برادران وطن کے کام کے لئے ادنی سے اعلی سطح تک کے افسران موجود ہےں لےکن مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے مےں سوچنے کے لئے کوئی نہےں ہے۔ اےسی صورت حال مےں ےوپی کے مسلمانوں کا نظر انتخاب انہےں امےدواروں پر جانی چاہئے جن کے دلوں مےں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو۔ جو مسلمانوں کے بارے مےں سوچتے ہوں ۔سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کی جن مےںعلمائ، صلحائ، مشائخ، دانشور، لےکچرر، پروفےسر، اساتذہ اور مختلف شعہبائے حےات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے کربلاک، ضلع، رےاست اور ملک مےں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں ، ان پر فرض عےن ہے کہ وہ اس مےدان مےں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تےار ہوجائےں۔ مےرے کہنے کا مطلب ےہ قطعی نہےں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت ےا حق مےں خم ٹھوک کر مےدان مےں انتخابات مےں کود پڑےں بلکہ وہ حضرات اس بات کی کوشش کرےں کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسےم نہ ہو۔ کےوں کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسےم کرنے کی سازش تےار کی جاچکی ہے، مہرے ، پےادے اور کارندے تےار ہوچکے ہےں جو آپ کو خوشنما خواب دکھاکر آپ کے ووٹ کو بانٹنے کی تگ و دو مےں لگ گئے ہےں۔ اےسے خوبصورت اور مذہبی لباس مےں آر اےس اےس کے نمائندے آپ کے سامنے پےش ہورہے ہےں جو بات تو کرےں گے اتحاد و اتفاق کی، مسلمانوں کی ترقی اور فلاح بہبود کی، مسلمانوںکی ےک لخت حالت بدلنے کی لیکن سچ وہ آپ کی بھلائی نہےں آ پ کے ووٹ کو پارہ پارہ کرکے بھارتےہ جنتا پارٹی کے کام کو آسان بنانے کے لئے مےدان مےں ہےں۔ اس بار ےوپی مےں جس طرح کا سےاسی کھےل بی جے پی بہت ہی خاموشی سے کھےل رہی ہے اس کا احساس عام لوگوں کو تو کےا مےدان مےں سےاست بہت سے آزمودہ کھلاڑےوں کو بھی نہےں ہے۔ وہ صرف نام نہاد کامےابی کے غبارے پر سوار ہےں اور زعم ہے کہ اس کی حماےت کے بغےر کسی پارٹی کی حکومت نہےں بنے گی۔ گزشتہ پارلےمانی انتخابات مےں اعظم کا واقعہ سامنے ہے جہاں بی جے پی آج تک وہاں کامےابی نہےں ملی تھی وہ صرف ووٹوں کی تقسےم کے سہارے اعظم گڑھ کو فتح کرنے مےں کامےاب رہی۔ اسی پارٹی اور اس کے مےڈےا کارندے نے اعظم گڑھ کو ”آتنگ گڑھ“ کہہ کر بدنام کےا تھا۔ نئی اور پرانی سےاسی پارٹےوں کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو خود طے کرنا ہے کہ انہےں خوف و دہشت ، ذلت، بدنامی اور مجبوری کی زندگی پسند ہے ےا عزت کی۔ اگر عزت کی زندگی پسند ہے تو انہےں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کا خمےازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ہر پانچ سال کے بعد مسلمانوں کوحساب چکانے کا موقع ملتا ہے اگر ےہ بھی چند کے عوض ذاتی مفاد پرستی کی بھےنٹ چڑھ گےا تو پھر شکاےت کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس کچھ نہےں رہے گا۔

ےوپی کے مسلمانوں کو بہار سے سبق حاصل کرنا چاہئے بی جے پی نے بہارمےں نتےش کمار کا نام نہاد سےکولر چہرہ سامنے رکھ کر کس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کم کی۔ سےمانچل کا خطہ جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت زےادہ ہے وہاں سے بھی مسلمان جےت نہےں پائے۔ آج ےہ پورا خطہ آر اےس اےس کے نرغے مےںہے۔ بی جے پی اور نتےش کمار نے بہت خوبصورتی سے مسلمانوں کا دروازہ اس طرح بند کےا کہ اس کا داغ بھی ان کے دامن پر نہےں لگا۔مسلمانوں کی نمائندگی بہار مےں آج سب سے کم ہے۔ اگر وہاں بی جے پی اور نتےش کمار کی حکومت نہےں ہوتی تو فاربس پولےس فائرنگ کا واقعہ بھی پےش نہےں آتا جس مےں چار مسلمان نہےںمارے گئے تھے اور اررےاکے علاقے کے بٹراہا مےں جہاں اےس اےس بی کے جوانوں نے چار مسلمانوں کو گولی مار کر ہلاک کردےا تھا۔ ان کا قصور ےہ تھا کہ وہ اپنی خواتےن کی عزت و آبرو بچانے کے لئے احتجاج کر رہے تھے اور فاربس گنج مےں پولےس نے محض اس لئے فائرنگ کرکے چار مسلمانوںکو ہلاک کردےا وہ اپنے ۵۵ سالہ پرانے راستہ کو بند کردئے جانے پر احتجاج کر رہے تھے۔ دونوں واقعہ مےں ظالموں کو حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل تھی ۔ آج بہار مکمل طور پر فرقہ پرستوں کی چنگل مےں ہے انہی فرقہ پرستوں کی مدد سے بہار کو دہشت گردی کی نئی آماجگاہ قرار دےا جارہا ہے ۔ آج بہار مکمل طور پر آر اےس اےس کے سحر مےں گرفتار ہے مسلم وزےر بھی مسلمانوںپر ہونے والے مظالم پر ہونٹ سی لئے ہےں۔ بہار اقلےتی کمےشن جسے آئےنی درجہ حاصل ہے اسے کوئی مظالم نظر نہےں نظر آتے۔نتےش کمار حکومت نے بہار کو مسلمانوں کے جہنم بنادےا ہے۔ فرقہ پرست طاقت جب بھی جہاں بھی چاہتی ہے مسلمانوں پر حملے کرتی ہے ۔ بہار کا مےڈےا جس مےں وہاں کا اردو مےڈےا بھی شامل ہے پوری طرح نتےش کمار کے زےر اثر ہے اور کوئی بھی بات جو نتےش کمار حکومت کے خلاف ہو لکھی نہےں جاتی ۔ بہار مےں فرقہ پرستی کا وائرس اس طرح پھےل چکا ہے کہ اگلے پچاس تک اس کی صفائی ممکن نہےں ہوسکے گی۔ نتےش کمار وہی کرتے ہےں جو بی جے پی چاہتی ہے اس کا سےکولرزم صرف دکھاوا ہے۔ لہذا ےوپی کے مسلمان ہوش کے ناخن لےں اور اپنے ووٹوں کو تقسےم ہونے سے بچائےں۔ اسی کے ساتھ تمام ذی ہوش مسلمانوں (جن مےں علماءاور مسٹر دونوں شامل ہےں) کی ذمہ داری ہے وہ اپنے چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے مجموعی مفادات کے بارے مےں سوچےں اور ان ہی امےدوار کی حماےت کرےں جو مسلمانوں کے لئے کام کرنے کے لئے تےار ہوں اور اپنی نمائندگی کسی طرح بھی کم نہ ہونے دےں۔ ےاد رکھئے اےک دن کی نادانی آپ کو سےکڑوں سال پےچھے چھوڑدے گی۔

ڈی۔۴۶، فلےٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلےو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. Ap ki baatun se us elehdgi ki bu sorry khushbu aa rhi hy jo 1900/1910 k dor mn muslamanu mn peda hui aur jis ka nateeja pakistan ki surat mn samne aya tha.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *