Regional Director
Maulana Azad National Urdu University ,
RC Bhopal , email: ahsanmohd1@yahoo.co.in
امپاورمنٹ بذریعہ معیاری تعلیم
ہندوستان میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہاں مسلمانوں کی تعداد کئی مسلم مما لک کی آ با دی سے دو گنی ہے۔ہندوستان انڈونیشیاکے بعد مسلم آ بادی والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔لیکن اتنی بڑی آبادی اور شاندار ماضی کے باوجود بھی آج یہ قوم زندگی کے ہر شعبہ سے نہ صرف بے دخل ہوئی جارہی ہے بلکہ سماجی اور معاشی بد حالی کاشکار بھی ہے۔اس کا سبب صاف طور پر تعلیم کی طرف سے ہماری بے توجہی اور محرومی ہے۔ ہماری پسماندگی کا یہ عالم ہے کہ مرکزی اقلیتی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ، صرف تعلیم کے میدان میں مسلمان برادرانِ وطن سے دس گنا پیچھے ہیں۔ سچر کمیٹی اور رنگاناتھ مشرا کمیٹی رپورٹ اور وقتاً فوقتاً معلومات فراہم کرنے والے دوسرے ادارے نیشنل سیمپل سروے نے ملک کی مختلف سماجی ، مذہبی اکائیوں کے درمیان اعٰلی تعلیم کے میدان میں پائے جانے والے فرق پر غور کرتے ہوئے اس بات کو مستند کر دیا ہے کہ عام طور پر مسلمان بیحدپسما ندہ ہیں یہاں تک کہ کئی جگہوں پر وہ درج فہرست ذاتوں سے بھی بدترحالت میں ہیں۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ ہماری ترقی کا کو ئی منصوبہ “معیاری تعلیم “کو یقینی بناے بغیر بروٴے کار نہیں لایا جا سکتا۔ مسلمان حکومت کی کسی بھی فلاحی اسکیم اور دیگر وسا ئل سے بخوبی فائدہ اس وقت تک نہیں اٹھا سکتے جب تک وہ تعلیم اور خصوصی طور پر اعلٰی تعلیم کے میدان میں مستحکم نہ ہو سکیں۔ اس ضمن میں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ترقیاتی کونسل کے 52 ویں اجلاس میں اپنی افتتاحی تقریر کے دوران کہا کہ…..
” ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے ثمر آور اسکیمیں تیار کرنی ہوں گی تا کہ اقلیتیں خاص طور سے مسلمان ترقی کے فائدے مساوی طور سے حاصل کرنے کی اہل بن سکیں۔ ملک کے وسائل پر پہلی دعویداری ان کی ہونی چاہیے تا کہ وہ بھی دوسرے طبقوں کے شانہ بہ شانہ ترقی کی منزل طے کر سکیں ۔اس بات کو ترجیحی بنیاد پر زور دیا جانا چاہیے کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہونا چاہیے تاکہ ترقی کے فائدے ان تک مساوی طور پر پہنچ سکیں۔”
مسلمانوں کی ترقی کا کوئی منصوبہ ان کی معیاری اعٰلی تعلیم کو یقینی بنائے بغیر برؤ ے کار نہیں لایا جا سکتا۔ لہٰذا اس راہ کی مشکلات اور مسائل کا اندازہ لگانا اشد ضروری ہے۔ آئیے ذرا ہم اس سے متعلق کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں۔
کل آبادی کے تناسب میں مسلمانوں کی خواندگی کا فیصد (2004-(05 (
مندرجہ بالا اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان اپنے برادران وطن بشمول درج فہرست ذاتوں کے مقابلے بھی کس قدر پسماندہ ہیں۔ہمارے یہاں جب خواندگی کی صورت حال یہ ہے توثانوی اور اعلیٰ سطح کی تعلیم کیسے بہتر ہو سکتی ہے۔ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 65 فیصد مسلمان بچے ہی مڈل اسکول اور 50 فیصد مسلمان بچے سکنڈری اسکول کی تعلیم پوری کر پاتے ہیں ۔ جبکہ تمام دوسری قوموں کے بچوں کا مجموعی اوسط مڈل اسکول کی سطح پر 75 فیصد اور سیکنڈری اسکول کی سطح پر 62 فیصد ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں آبادی کا ایک بڑا طبقہ اعلٰی تعلیم کی نعمتوں سے محروم ہے۔ لیکن اس طبقہ میں مسلم اقلیت بالخصوص محروم تر ہے۔ مسلمانوں میں تکنیکی تعلیم کا بھی فقدان ہے۔اوسطاً صرف ایک فیصد مسلمان ہی تکنیکی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں۔ کسی قوم میں ٹیکنیکل گریجویٹ کا تناسب ہی یہ طے کرتا ہے کے ملک یا سماج میں ٹیکنیکل صلاحیت کا سرمایہ کس تناسب میں ہے ۔ ہندوستان میں قومی سطح پر ہر 100 میں سے ٹیکنیکل گریجویٹ صرف 2 ہیں جبکہ مسلمانوں کی نمائندگی اس میدان میں صفر کے برابر ہے۔ اسی طرح سے اعلٰی تعلیم سے آراستہ مسلمانوں کی تعدادتقریباً 4 فیصد ہے۔جب کہ ملک کی مجموعی تعداد 7 فیصد ہے۔
گریجویشن کی سطح پر معیاری کالجوں میں مسلمان طلبہ کی تعداد 25 میں صرف ایک ہوتی ہے اور پوسٹ گریجویشن تک پہونچنے تک یہ تعداد 50:1 کی ہو جاتی ہے یعنی 50 طلبہ میں ایک طالب علم مسلمان ہوتا ہے۔ اسی طرح IIMs میں مسلم طلبہ کی تعداد صرف 1.3 فیصد اور IITs میں 1.7 فیصدہے۔ سچر کمیٹی کے ر پورٹ کے مطابق 14 کروڑ مسلمانوں میں سے صرف 24 لاکھ گریجویٹس ہیں اور 73 لاکھ کے قریب ہائر سکنڈری پاس ہیں۔
دراصل ہمارے یہاں پرائمری سطح سے ہی تعلیم کا معیار کافی کمزور پڑ جاتا ہے۔مسلم بچوں میں 14-6 برس کے صرف 60 فیصد بچے ہی پرائمری اسکول جاتے ہیں۔اور 25 فیصد بچے تو ایسے ہوتے ہیں جو کبھی پرائمری اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھتے۔ مسلمانون کو تعلیم یافتہ بنانے کا یہ کام مرحلہ وار ہونا چاہیے۔ اگرمسلمانوں میں بھی بچوں کو بہترابتدائی تعلیم دلانے کا نظم ہو تو یہا ں بھی ثانوی سطح پر بہتر بچے ملیں گے۔ جب ان کی ثانوی تعلیم معیاری ہوگی تو وہ یونیورسٹی میں اچھے طالب علم ثابت ہو سکیں گے ۔ اگر یونیورسٹی میں بی- اے اور ایم- اے کی سطح پر امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں تو دیگر مقابلہ جاتی امتحانات میں شامل ہو سکتے ہیں اور اس میں بھی ان سے بہتر کار کردگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اچھی نوکریوں اور اعلی عہدوں پر مسلمانون کی تعداد بہت کم ہے۔ ذیل کے جدول کے ذریعے سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا اعداد و شمارسے اندازہ ہوتا ہے کہ تقریباً تمام سرکاری شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بے حد مایوس کن ہے اور آبادی کے تناسب سے میلوں دور ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان مقابلہ جاتی امتحانات میں کم حصہ لیتے ہیں اور اپنی آبادی کے تناسب میں شریک نہیں ہوتے
نیز مسلم امید واروں کا مقابلہ جاتی تحریری امتحان (Written)میں کامیابی کا تناسب غیر مسلم امیدواروں کے مقابلے بہت کم یا نصف کے برابر ہوتا ہے اس کی وجہ ان کی کمزور تعلیمی بنیاد کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
تحقیقی پروجکٹ پر مبنی ڈاکٹر فہیم الدین کی کتاب بعنوان “Modernization of muslim education in India” سے کچھ اعداد و شمار جو 1980-82 کے ہیں ا سے حوالے کے طور پر یہاں پیش کیے جا رہے ہیں اس سے ہمیں اس حقایق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ نوکریوں میں مسلمانوں کی تعداد کی کمی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ریاستی سول سروس کے تحریری امتحانات و انٹرویو میں مسلمان امیدوار کی کار کردگی
مردم شماری 1971 کے مطابق مسلما نوں کی آبادی ان ریاستوں میں بتدریج 4.3 فیصد ، 13.4 فیصد اور 15.4فیصد تھی۔ جدول میں دیے گئے اعدادو شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان تینوں ریاستوں میں مسلم امیدوار اپنی آبادی کے تناسب سے50 فیصد سے بھی کم تحریری امتحان میں شامل ہوئے۔ نیز تحریری امتحان میں شامل ہونے والے کل امیدواروں میں سے کامیاب 4.8 فیصد غیر مسلم امیدواروں کے مقابلے ، صرف 2.7 فیصد مسلم امیدوار ہی کامیاب ہو سکے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم امیدواروں کی شرح کامیابی غیر مسلم امیدواروں کے مقابلے نصف ہے۔ رپورٹ کے مطابق اتفاقاً اس وقت (1981) میں اتر پردیش اور بہار پبلک سروس کمیشن بورڈ میں مسلم ممبر کی بھی نمایندگی تھی ۔ مشہور ماہر تعلیم سید حامدنے بھی اس حقیقت کو ا جاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”مسلمان بچوں کے لیے مقابلہ جاتی امتحانوں کی تیاری کی کوچنگ کلاسس چلاتے ہوئے مجھ پر یہ راز کھلا کہ مسلم جما عتوں کے امیدوار صلاحیتوں اور کار کردگی کے اعتبار سے دوسری قوموں کے مساوی نہیں ہیں”۔
یہاں بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر مسلمان کیوں مقابلہ جاتی امتحانات میں نہیں بیٹھتے۔تناسب کو درست کرنے کے لیے مقابلہ کا شوق اور صلاحیت کو عام کرنا ہوگا ۔ بنیادی، ثانوی اور اعٰلی تعلیم میں بہتر کار کردگی کے لیے اچھے اسکول اور کالج کھولنے ہوں گے جہاں سے ہمارے بچے باصلاحیت بن کر فارغ ہوں اور اعتماد کے ساتھ زندگی کی رزم گاہ میں نبرد آزما ہوں۔ جب تک ہماری بنیادیں مضبوط نہیں ہوں گی ہم عالیشان تعمیرات کا تصور نہیں کر سکتے۔ مسلمانوں کے یہاں عموماً علم و عمل کا تعلق سے جوش و خروش کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی کمی ہے جو کسی بھی تحریک ،تجربہ یا علم میں کمال پیدا کرنے میں سنگ راہ ثابت ہوتی ہے۔
ہمیں یہ بات ذ ہن نشین رکھنا چاہیے کے ہر ایک قوم اپنی بقا و ترقی کے لیے بدلتے ہوے حا لات اور تقا ضے کے مطابق اپنے آپ کو compete کرنے کے لیے خود ہی تگ و دو کرتی ہے اور صرف حکو ممتوں کے بھروسے نہیں رہتیں۔ یہ صحیح ہے کہ حکومتیں عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے ہوتی ہیں لیکن ا کژ ان کے ترجیحات مختلف ہوتے ہیں ۔ اگرمسلم قوم سماجی، معاشی اور تعلیمی سطح پر اپنے لیے کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے تو کسی سر سید، عبدالحمید جیسے رہنما کے انتظار کے بجا ے سبھوں کو خود آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کا شمار آج سب سے کم تعلیم یافتہ اور پسماندہ قوم میں ہوتا ہے اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج کا مسلم نوجوان نہ صرف یہ کہ احساس کمتری کا شکار ہے بلکہ خود کو وہ بے یارو مدد گار ، بے بس اور بے سہارہ محسوس کرتا ہے ساتھ ہی ساتھ یہ خیال بھی اس کے دماغ میں گھر کر گیا ہے کہ خواہ وہ کتنا ہی پڑھ لکھ لے مگر حکومت کے تعصبی ا فسران اسے کبھی آگے نہیں بڑھنے دیں گے ایسی سوچ کس حد تک صحیح ہے یا غلط یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ وہ یہ سب باتیں سوچ کر خود کو تعلیم سے الگ کر لے۔
بقول پروفیسر ضرغام حیدر ” عدم مساوات کا جو احساس ہمارے درمیان پیدا ہوا ہے وہ انفرادی اور اجتمائی طور پر سیکڑوں برس سے نشود نما پاتا رہا ہے اور اب آنے والی نسلوں کو متاثر کر رہا ہے۔ فکر کی دوسری بڑی وجہ تعلیمی پسماندگی ہے کیوں کہ یہ عدم مساوات اور دوسرے اہم معاملات خصوصاً سماجی اور معاشی طبقوں کے معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے۔یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ خراب ہو جاتی ہے جب اس برق رفتار دور میں پچھڑ جانے والے لوگ اپنی اس حالت کو کوشش اور عمل کی کمی نہ سمجھ کر صرف تقدیر الہٰی سمجھ لیتے ہیں۔پھر نہ چاہتے ہوئے عدم مساوات ہی خراب صورت حال کا جواز بن جاتی ہے۔لہٰذہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عدم مساوات کے اس شکنجے سے خود کو آزاد کرائیں اوراس احساس کو نسل در نسل پھیلنے سے بچائیں ۔ گذ شتہ کچھ دہائیوں سے ہماری نئی نسل متعدد چنو تیوں سے جوجھ رہی ہے۔ مستقبل میں بھی ایسی چنو تیا ں متوقع ہیں کیوں کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں متواتر تبدیلیاں ہورہی ہیں اور ہمارے سماجی اور سیا سی حالات عالمی اثرات کے تناظر میں بدلتے رہیں گے۔نوجوان نسل کو ان چنو تیوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ان حالات میں نوجوان نسل کے پاس تعلیم میں بہتر کارکردگی ثا بت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے یہ واحد ہتھیار ہے جو وقت کے چنو تیوں کا سامنا کرنے کے لیے انھیں ہمہ وقت مسلح اور چوکنا رکھے گا۔ ” ( بحوالہ سمینار پیپر۔(Excellence in Education for Empowerment
حقیقت تو یہ ہے کہ جب تک مسلمانوں میں تعلیم عام نہیں ہوگی تب تک وہ غربت کے شکنجے سے نہیں نکل سکتے اور نہ ہی وہ اس جمہوریت میں اپنے آپ کو ایک منظم جمیعت کے طور پیش کر سکتے ہیں ۔ آج گلوبلائزیشن کے دور میں تعلیمی پسماندگی ہمیں مزید غربت کے خول میں ڈھکیل دیگی ۔ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں ہمارے ملک کی معیشت پہلے سے بہتر ہوئی ہے۔ گلوبلائزیشن کی متعدد صفتوں میں سے ایک صفت آوٹ سورسنگ کی خدمت ہے۔ آوٹ سورسنگ کے ذریعے کارخانے/ ادارے/ تجارتی کمپنیاں اپنے کاروباری یا دفتری کام کے ان حصوں کو جس میں افرادی قوت Man power) (کی ضرورت زیادہ اور منافع کی شرح کم ہوتی ہے اسے کسی اور تجارتی کمپنی یا ادارے کو دے دیتی ہیں۔ابتدای دور میں آوٹ سورسنگ کے ذریعے صرف Manufacturing sector کی ملازمتیں ہی ہندوستان میں آتی تھی لیکن بعد میں اس میں وسعت آئی اور تمام سیکٹر بشمول انفارمیشن ٹیکنالوجی ، اور سائنس سیکٹر کی ملازمتیں بھی آوٹ سورسنگ کے ذریعے یہاں کی جانے لگیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں کافی ترقی حاصل کی ہے۔ اسلیے موجودہ دور ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے کے لیے ایک بہتر دور کہا جا سکتا ہے۔ کیو نکہ امریکہ یورپ اور دیگر ممالک ہندوستان میں اپنے Jobs منتقل کر رہے ہیں۔ اس لیے اس سیکٹر میں متعدد مواقع کی گنجائش ہے۔
مزید ہندوستان میں نیجی کرن کے بعد متعدد نئی نجی تجارتی کمپنیاں اپنے اپنے نئے Ventures لا رہی ہیں۔نجی تجارتی کمپنیاں ملٹی نیشنل تجارتی کمپنیوں سے مل کر بھی یہاں کام کر رہی ہیں۔پبلک سیکٹر کی کچھ اکائیوں کی کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے حکومت نے انھیں نجی کمپنیوں کو فروخت کر دیا ہے۔نجی تجارتی کمپنیاں چونکہ منافع کے لیے کام کرتی ہیں اس لیے وہ لوگوں کو اپنے یہاں روزگار دیں گی جو اان کے لیے سب سے زیادہ اہل ہوں گے۔اس پس منظر میں پرائیویٹ سیکٹر میں بھی مقابلہ کا دور ہوگا اور با صلاحیت افراد کو روزگار مل سکے گا۔
بقول پروفیسر ضرغام حیدر ” “بیسویں صدی کے آخری بر سوں میں انسانی وسائل کی ترقی میں جو غیر معمولی فرق پیداہوا ہے وہ جدید ٹکنالوجی کی دین ہے۔ دوسری طرف سائنس اور ٹکنالوجی کے عملی اثرات نے یورپ اور امریکہ میں انسانی وسائل اور معیشت کی ترقی میں نمایاں کر دار ادا کیا ہے ۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں معلومات میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اس کی مثال انسانی ترقی کی تاریخ میں نا پید ہے۔ایک تخمینہ کے مطابق 1950 – 2000 کے درمیان معلومات میں دو گنااضافہ ہوا ہے۔ اور 2000 کے بعد معلومات میں یہ اضافہ ہر سال دو گنا ہورہا ہے۔ مزید یہ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ نئی اطلاعات جو ادھر 30 برسوں میں دستیاب کرائی گئی ہیں وہ پچھلے 5000 برسوں میں بھی نہیں تھیں۔
” ( بحوالہ سیمینار پیپر Excellence in Education for Empowerment )
اس طرح یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دور میں انسانی وسائل کی ترقی سرمایہ کاری یعنی سائنس ٹکنالوجی اور تحقیق ہی کسی ریاست و قوم کی ترقی اور خوش حالی کی کنجی ہے۔ وہ ملک اور قومیں جو سائنس اور ٹکنالوجی سے خود کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہیں ہیں انھیں اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے بھی دوسرے ممالک اور قوموں پر منحصر رہنا ہوگا۔ مسلمان سائنس اور تکنیکی تعلیم کے میدان میں دوسری اقوام کے مقابلے کافی پیچھے ہیں ۔ سائنس کی اعلی تعلیم و تحقیق اور میڈیکل و انجینیر نگ جیسے شعبوں کی تربیت میں مسلم پسماندگی کا بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وہ داخلے کے امتحانات میں مقابلے کی پہلی سیڑھی ہی نہیں چڑھ پاتے ، نہ مسلمان طلبہ اچھی کوچنگ کے اس نظم سے کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں جو حکومت یا دوسرے تعلیمی اداروں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انھیں اس طرف متوجہ کرنے کہ علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے ہونہار طلبہ کے لیے معقول وظیفوں کا انتظام کریں۔
گذشتہ چند دہائیوں میں ہندوستانی خواتین نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جس برق رفتاری سے اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا ہے اس سے ہمارے ملک میں ایک نئی اور خوش گوار فضا دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کے بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔لہٰذا ماں ہی جدید تعلیم سے آراستہ نہیں ہوں گی تو پھر بچے کا مستقبل کیسے تابناک ہو سکتا ہے۔ اگر ہم مختلف خاندانوں میں جا کر اس بات کا تجزیہ کریں کہ ایک ناخواندہ ماں کے بچے عصری اور دینی لحاظ سے زیادہ کامیاب ہیں یا پھر علوم و فنون سے مزین ماں کے بچے ، …. تو ہمیں اس بات کا جواب مل جائے گا کہ تعلیم یافتہ افراد کے بچے ہی دنیاکے مختلف میدانوں میں ذیادہ کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور نا خواندہ افراد کے بچے اب بھی اس دوڑ میں اپنے آپ کو کافی پیچھے پا رہے ہیں ۔
جہاں تک ہندوستان میں مسلم خواتین کی تعلیم کا تعلق ہے تو بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دوسری قوموں کی بہ نسبت مسلمانوں میں اب بھی کہیں نہ کہیں یہ ذہنیت ضرور پائی جاتی ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ تعلیم دیناکا رعبث ہے۔ ہندوستان میں اب بھی 57.6% مسلم خواتین نا خواندہ ہیں ۔یہاں پر اسکول جانے والی غیر مسلم لڑکیوں کی تعداد جہاں ایک طرف 64% کے قریب ہے وہیں دوسری طرف تقریباً 41% مسلم لڑکیاں ہی اسکول تک پہہنچ پاتی ہیں۔ آئیے ذرا ہم ہندوستان میں تعلیم نسواں کے متعلق اعداد و شمار پر نظر ڈالیں جسے پروفیسر زویا حسن اور نیتو مینن نے اپنی کتاب equal citizen Unمیں پیش کیا ہے ۔
مختلف سماجوں میں خواتین کی تعلیمی سطح
تعلیم یافتہ خواتین کے بغیر کسی بھی ترقی یافتہ معاشرہ کا تصور ممکن نہیں ہے تعلیم کے ذریعے ہی خواتین ترقی کر سکتی ہیں اور مختلف مواقع کا استعمال کر سکتی ہیں ۔ تعلیم ہی وہ شئے ہے جو عورتوں کو ان کی روایتی ذمہ داریوں کی چنو تیوں کا مقابلہ کرنے اور مشکل حالات کا سامنا کرنا سکھاسکتی ہیں۔ خواتین کی تعلیم سے صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک پورا خاندان و معا شرہ مستفید ہوتا ہے۔پسماندگی کو دور کرنے ا ور ترقی کے امکانات کو روشن کرنے میں خواتین کی تعلیم مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت اور ترقی کے معاملے میں ماں کا تعلیم یافتہ ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔اس طرح خواتین کی تعلیم کا مسٴلہ ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چا ہیے۔ تعلیم یافتہ خواتین آج کے سماج کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔کیونکہ اسی قوت کی بنیاد پر ہم اپنے نسلوں کی تربیت ، رہنمائی ، ان کے سوچ و فکر کی تشکیل اور ان میں قائدانہ صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے تعلیم نسواں پر خرچ کرنا ایک
مو ثر قدم ثابت ہو رہا ہے اور ماہرین کا ماننا ہے کہ ایک ترقی یافتہ سماج کے لیے لڑکیوں کا کم از کم ثانوی درجہ تک تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے۔
تعلیم کے میدان میں مسلم طالبات کی فیصد کا تناسب کم ہے لیکن ان کے نتائج اچھے ہیں ۔ پھر بھی مسلم طالبات کی ایک بڑی تعداد سائنس اور ٹکنالوجی اور پیشہ وارانہ کورسیز کے مقابلے محض زبان و ادب اور روایتی مضامین کا انتخاب زیادہ کرتی ہے۔ پروفیسر زویا حسن اور ریتو مینن کی کتاب Unequal Citizen میں دیے گیے اعداد و شمار کے مطابق ” 57.6 فیصد مسلم خواتین نا خواندہ ہیں ۔ گیارہ فیصد سے کم پرائمری درجہ تک تعلیم یافتہ ہیں اور ثانوی و اعلی سطح کی تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی فیصد بتدریج صرف 10 فیصد اور 3.5 فیصد ہے۔ اس کے اسباب کمزور سماجی اور اقتصادی حالات ہیں نہ کہ مذہب ۔ ان علاقوں میں جہاں مسلمان بہتر حالت میں ہیں وہاں مسلم خواتین اعلٰی تعلیم کی سطح تک بھی پہنچی ہیں۔26 فیصد تعلیم یافتہ مسلم خواتین کے شوہر ناخواندہ ہیں ۔ مردوں کی تعلیم کے اس پچھڑے پن کا نتیجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیمی سطح کو بھی کم تعلیم یافتہ مردوں کے مساوی محدود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تا کہ لڑکیوں کی شادی کرنے میں ان کا مردوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہونا دشوا ریوں کی و جہ نہ بن جاے ۔ “
اس صورت حال میں ہمیں تعلیم نسواں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تعلیم کے ذریعے خواتین تخلیقی اور تعمیری کاموں میں حصہ لینے کی اہل ہوسکتی ہیں ۔مزید سماج کی تعمیر اور اس کو حیات نو عطا کرنے میں وہ اپنا بھرپور کردارادا کر سکتی ہیں۔ اس کے لیے معقول مواقع بھی موجود ہیں۔ ہمیں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کی اہمیت اجا گر کرنے کی موجودہ کو شسوں کو بڑھا نے کی ضرورت ہے ۔ آج ہندوستان کے عام معاشرہ میں عورتوں کی حصہ داری بڑھ رہی ہے لیکن مسلم معاشرہ کے بارے میں ایسا کوئی دعویٰ کرنا اس لیے سچ نہیں کے مسلمان خود ہر مورچہ پر پچھڑتے جارہے ہیں اسی تناسب میں ہماری عورتیں بھی دوسرے سماجوں سے کافی پیچھے ہیں عام طور پر اس کی وجہ مذہبی بتائی جاتی ہے جب کہ یہ خالصتاً اقتصادی و سماجی مسئلہ ہے اس لیے وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ایک نئی سوچ نئے عزم اور نئی قوت سے اپنی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے جدو جہد کریں۔ اور اس کا واحد ہتھیار تعلیمی معیار کو اعلی بنانے اور بہتر کار کردگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔