Home / NCPUL / مشترکہ تہذیبی سرمائے میں ہماری کتنی حصے داری ہوگی : پروفیسر وسیم بریلوی

مشترکہ تہذیبی سرمائے میں ہماری کتنی حصے داری ہوگی : پروفیسر وسیم بریلوی

مشترکہ تہذیبی سرمائے میں ہماری کتنی حصے داری ہوگی : پروفیسر وسیم بریلوی

آج قومی اردو کونسل کے صدر دفتر ’فروغ اردو بھون‘ میں پروفیسر اختر الواسع کی صدارت میں اسلامک اسٹڈیز پینل کی پہلی میٹنگ کا اہتمام کیا گیا۔ اسلامک اسٹڈیز کے پینل کا قیام نہ صرف اردو زبان کے فروغ میں اسلامک اسٹڈیز کی اہمیت و افادیت کو واضح کرنا ہے بلکہ مشترکہ تہذیبی سرمایہ میں اردو کے فروغ کی کتنی حصے داری ہونی چاہیے ؟ یہ بھی طے کرنا ہے ۔ ان ابتدائی کلمات سے پروفیسر وسیم بریلوی نے اس اہم میٹنگ میں آئے ہوئے علماء حضرات اور دیگر زبانوں کی ماہرین اور علمی و ادبی شخصیات کا خیر مقدم کیا۔
حکومت ہند کی جانب سے قومی اردو کونسل کو ملک کی تمام اردو تنظیموں اور علمی اداروں کے مابین باہمی تعلق قائم کرنے کی ذمے داری دی گئی ہے تاکہ حکومت کی پالیسیوں کو ملک کے اردو بولنے والے خطوں میں نافذ کیا جا سکے۔ ان ذمے داریوں کے ساتھ قومی کونسل کو عربی اور فارسی زبانوں ، جنھوں نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان زبانوں کی ترقی کی اضافی ذمے داری بھی دی گئی ہے۔
اسلامک اسٹڈیز ہماری مشترکہ تہذیبی وراثت کی ترجمانی کے لیے ایک اہم موضوع ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے ، ان خیالات کا اظہار قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر محمد خواجہ اکرام الدین نے کیا۔ انھوں نے شرکا کے سامنے کونسل کے منشور کو واضح کرتے ہوئے کئی اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی۔ اسلامک اسٹڈیز پینل کے چیئرمین پروفیسر اختر الواسع نے اپنی ماہرانہ رائے دیتے ہوئے کہا کہ اسلامک اسٹڈیز سے ہماری مراد صرف متن تک نہیں ہے بلکہ ہم متن کو سیاق کے ذریعے بھی دیکھیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کونسل اپنے دائرے میں رہ کر کچھ اہم کام انجام دے سکتا ہے۔
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ’اسلامک اسٹڈیز کے لیے ہندوستان کی خدمات‘ کے عنوان کے تحت ایک بڑے پراجیکٹ کی شروعات کی جائے گی اور اسلامک اسٹڈیز کی اردو انسائیکلوپیڈیا تیار کی جائے گی۔ اسلامک اسٹڈیز کی عربی فارسی اور انگریزی میں مہیا اہم کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جائے گا۔ انھوںنے یہ بھی کہا کہ وہ کون سے اہم عصری موضوعات ہیں جن پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔انھوں نے میٹنگ میں موجود علمی اور دینی حلقوں کی نمائندگی کر رہے علما اور دانشوروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں مسلم اکثریتی ممالک میں ہم کہاں پر ہیں اور ہمارا کیا رول ہو سکتا ہے ۔کونسل کے منشور کے مطابق ہمارے اختصاص اور ہماری ترجیحات کیا ہوں گی؟ ان سبھی باتوں پر غور کرنا ہوگا ۔
سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولر ازم ، ممبئی کے چیئرمین ڈاکٹر اصغر علی انجینئر نے کہا کہ اسلامک اسٹڈیز کے کئی ایسے تہہ دار پہلو ہیں جن کا جاننا بہت ضروری ہے۔ مثلاً اس موضوع کی سوشیولوجیکل اور سائنٹفک اپروچ کو مد نظر رکھتے ہوئے جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا ترجمہ ہونا چاہیے اور موجودہ عصری حالات میں یہ کتابیں اشد ضروری ہیں۔ ممبئی کی سینٹ زویس کالج کی ڈاکٹر زینت شوکت علی نے کہا کہ اسلام کی اصلی شبیہ کو پیش کیا جانا چاہیے ۔ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور کی جانی چاہئیں۔ اس لیے عوامی بیداری کے لیے بھی اسلامک میتھولوجی پر آسان اردو زبان میں کتابیں شائع ہونا ضروری ہے۔
میٹنگ میں موجود علمائے کرام اور علمی دانشوروں کی تجویزات کچھ اس طرح ہیں :
1۔ اسلامک اسٹڈیز ان جنرل کیا ہے ؟ ان پر حوالہ جاتی کتابیں مہیا کرائی جائیں۔
2۔ عربی اور فارسی کی اہم کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا جائے۔
3۔ وہ موضوعات جو ااسلام کے حقیقی تصور کو پیش کریں ، ان موضوعات پر کتابیں شائع کی جائیں۔
4۔ مدارس اسلامیہ اردو کے تئیں بڑی اہم خدمات دے رہے ہیں اور اردو اخبارات کو پڑھنے والے بھی زیادہ تر مدارس کے ہی لوگ ہیں۔
مدارس کی شخصیات ، علمی سرمایہ،خانقاہوں اور مدارس کا جامع تعارف پیش کرنا ضروری ہے۔
آج کی اس میٹنگ میں ڈاکٹرپروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر منظور عالم، مولانا خوشتر نورانی، ، مولانا یسیٰن اختر مصباحی، مولانا مبارک حسین مصباحی (مؤ)، پروفیسر سید احسان (علی گڑھ )، ڈاکٹر اصغر علی انجینئر (ممبئی )، ڈاکٹر زینت شوکت علی، (ممبئی)، پروفیسر اشتیاق دانش، ڈاکٹر اقتدار محمد خان، ڈاکٹر فریدہ خانم نے بھی شرکت کی۔

About admin

Check Also

طالبان کے خلاف کارروائی ناگزیر کیوں

حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا کھیل ایک طرف تو کافی دلچسپ ہوتا جا …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *