Home / Socio-political / گھریلو مسائل کے لیے ہندوستان کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کام نہیں چلے گا

گھریلو مسائل کے لیے ہندوستان کو موردِ الزام ٹھہرانے سے کام نہیں چلے گا

Attempts to accuse India for domestic problems will not help

It is quite amusing to read some of the Urdu papers in Pakistan.  They appear to believe, like many of their political leaders and army generals, that most of their domestic problems will wash away if they deflect them to a `whipping horse’, the next door neighbour to the east.

A report on Pak Newspapers

پاکستانی اخبارات کی خبروں  پر مبنی تجزیہ

پاکستان کے بعض اردو اخباروں کو پڑھ کر بہت حیرانی ہوتی ہے۔ زیادہ تر سیاسی لیڈروں اور فوجی جنرلس کی طرح وہ بھی یہی سوچتے ہیں کہ ان کے گھریلو مسائل اس وقت ختم ہو جائیں گے جب انھیں ایک ’تیز طرار گھوڑے‘ پر لاد کر مشرق میں واقع اپنے پڑوسی کی طرف دوڑا دیا جائے۔

زیادہ تر اردو اخبارات کا یہی حال ہے۔ آپ کسی بھی اردو اخبار کو کھولیں، خاص کر غیر معروف نوائے وقت کو، آپ دیکھیں گے کہ اس میں ہندوستانی آبی دہشت گردی اور جموں و کشمیر سے پاکستان میں بہنے والی ندیوں پر اس کے ذریعے بنائے جانے والے 62 باندھوں کا ذکر ہے۔ یہ صرف اردو اخبارات کا ہی معاملہ نہیں ہے۔ بہت سے ایسے سرکاری ترجمان بھی موجود ہیں جو اس قسم کی کہانیاں کہنے کے لیے اپنا نام پیش کرنے کو تیار ہیں۔ سندھ واٹر کونسل کے چےئرمین حافظ ظہورالحسن دہر کے حوالے سے 5 نومبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2013 تک ہندوستان پاکستانی ندیوں کے رخ کو اپنے کھیتوں کی طرف موڑ لے گا اور اس کے بعد پاکستان کو پینے تک کا پانی نصیب نہیں ہوگا اور اس کے کھیت خشک ہو جائیں گے۔

بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی باتیں مدلل ہوتی ہیں، لیکن ایسی آوازوں کو ہمیشہ دبا دیا جاتا ہے۔ 5 نومبر کو جسارت میں یہ رپورٹ شائع ہوئی – ”اندس واٹر کمشنر سید جماعت علی شاہ نے اپنے آن لائن ٹاک شو میں کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو ندیوں پر باندھ بنانے کی وجہ سے قحط سالی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ندیوں میں پانی کی سطح میں کمی موسم کے حالات کی وجہ سے ہوتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستان نے ندیوں پر جو بھی ہائڈل پروجیکٹس بنائے ہیں وہ سب سندھ آبی معاہدہ کے تحت ہیں اور اس کی اسے منظوری دی گئی ہے۔ انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ہندوستان 50-60 باندھوں کی تعمیر کر رہا ہے۔“

اصل مدعا یہ ہے کہ آپ جموں و کشمیر میں 60 باندھ نہیں بنا سکتے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ان اخبارات کو یہ اطلاع کون فراہم کر رہا ہے، جو ایک ہی بات کو ہر روز دوہراتے رہتے ہیں۔

ابھی تک دو ہی بڑے باندھ بنائے گئے ہیں یا جن کو بنائے جانے کی تجویز ہے اور وہ ہیں بگلیہار اور کشن گنگا، اس کے علاوہ چند چھوٹے بیراج ہیں۔ یہ وہ تمام باندھ ہیں جن کی منظوری 1960 کے سندھ آبی معاہدہ کے تحت ہندوستان کو حاصل ہے۔ بگلیہار باندھ کی اونچائی کو لے کر ایک تنازع ضرور تھا جس کے لیے پاکستان نے ورلڈ بینک کے کسی ماہر کی مداخلت چاہی۔ بینک نے معمولی ٹیکنیکل ایڈجسٹمنٹ کے بعد اس پروجیکٹ کو ہری جھنڈی دکھا دی۔ پاکستان نے کشن گنگا کے بارے میں بھی اعتراضات پیش کیے اور انڈس واٹر کمشنر جی رنگناتھن نے اپنے پاکستانی ہم منصب سید جماعت علی شاہ کو ایک خط لکھ کر اس مسئلہ پر بات چیت کرنے کے لیے مدعو کیا ہے۔

پاکستان کے لیے یہ بالکل درست قدم ہے کہ وہ ہندوستان کے ذریعے بنائے جانے والے باندھوں کے سبب پانی میں آنے والی کمی اور جموں و کشمیر کی آبادی کو پانی کی عدم دستیابی سے متعلق اپنی فکرمندی ظاہر کرے، اور ہندوستانی حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان تشویشوں پر غور کرے۔ یہ معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے جس طرح چین پوری خاموشی کے ساتھ باندھوں کی تعمیر کر رہا ہے۔

اب، سندھ واٹر کونسل کے چےئرمین اور ان کے ہم منصبوں کو آخر کس چیز نے اس بات کے لیے مشتعل کیا کہ وہ ہندوستان کی طرف انگلی اٹھائیں۔ اگر کوئی سندھی اخباروں کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے کچھ سراغ مل جائے گا۔ مسئلہ کی جڑ ہے 1991 کے آبی معاہدہ کو متعدد صوبوں کے ذریعے نافذ نہ کرنا۔حقیقت یہ ہے کہ سندھ بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ سرحد اور یہاں تک کہ پاک مقبوضہ کشمیر کی قیمت پر پنجاب میں زیادہ سے زیادہ پہنچانے کو منظوری دی جاری ہے۔

ادریس راجپوت نے کاوش میں لکھا کہ تمام صوبوں کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے 1991 میں ایک معاہدہ ہوا اور اس کے نفاذ پر نظر رکھنے کے لیے 1992 میں آئی آر ایس اے کا قیام عمل میں آیا۔ لیکن 1993 اور 1994 میں پانی کی کمی کے سبب 1991 کے آبی معاہدہ کے تحت پانی کی تقسیم کو روک دیا گیا۔ اس کے بجائے 1977 سے 1982 کے درمیان پانی کے بٹوارے سے متعلق بنائے گئے قوانین کے مطابق پانی کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا۔ انھوں نے مزید لکھا کہ 2003 میں آئی آر ایس اے نے تین مراحل پر مبنی پانی کی تقسیم کا ایک نظام قائم کیا جس کی وجہ سے شمال مغربی صوبہ سرحد اور بلوچستان کو جزوی طور پر فائدہ ہوا جب کہ سندھ صوبہ کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔

سندھ کے آبپاشی اور پلاننگ ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ماہرین کے مطابق، پنجاب اور شمال مغربی صوبہ سرحد میں 200 سے 250 چھوٹے باندھ تعمیر کیے جاچکے ہیں اور سندھ کی حکومت کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ ان باندھوں میں کتنا پانی جمع کیا جاتا ہے۔ ان کی شکایت ہے کہ پنجاب سے جب بھی 1991 کے آبی معاہدہ کا احترام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ کوئی نہ کہانی بہانہ بناکر اس میں رخنہ ڈال دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی جنرلس اور طاقت ور سیاسی لیڈروں کا تعلق پنجاب سے ہے اور وہی دیگر صوبوں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

کراچی میں موجود پاکستانی ذرائع کے مطابق، جب صدر نے سندھ میں پانی کی سپلائی کو بہتر بنانے کے لیے تونسا – پنجال نہر کو بند کرنے کا حکم جاری کیا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے 6 جون کو وزیر اعظم گیلانی کو ایک خط لکھ ڈالا۔ ان کے بھائی نواز شریف اور آرمی چیف جنرل کیانی کے ذریعے کافی دباؤ بنایا گیا۔ معاملہ طے ہوگیا اور گیلانی نے صدارتی حکم کو منسوخ کردیا۔

بلوچستان کے زیادہ تر مسائل بھی آبی ذخائر کی غیر منصفانہ تقسیم کو لے کر ہیں جس کا مطالبہ ہے کہ اسے اس کا جائز حق دیا جائے۔ پاک مقبوضہ کشمیر کے مطالبات بھی کچھ ایسے ہی ہیں لیکن پنجاب انھیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

یہ گھریلو مسائل خود اپنے ہی ذریعے پیدا کیے گئے ہیں، جب کہ پنجابی غلبہ والے طاقت کے مراکز کا یہ الزام ہے کہ پاکستان کے تمام مسائل ہندوستان کی وجہ سے ہیں۔ اس قسم کا انکار بہت سی آوازوں کو کچھ وقت کے لیے دبا سکتا ہے لیکن اس سے پاکستان کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ 1971 میں اس کی مغربی شاخ کے ساتھ کیا ہوا، اسے بھولنا نہیں چاہیے۔ مسائل پیدا کرنے کے لیے آپ کو باہری طاقت کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ عوام کو پیچھے دھکیلنے سے آج نہیں تو کل بغاوت ضرور ہو گی۔

پاکستان کے مختلف صوبوں کے ساتھ بہتر تال میل سے ایک صحت مند اور پر اعتماد ریاست کی تشکیل ہوگی، اور اسی سے بہتر پڑوس کے تعلقات برقرار رکھے جاسکتے ہیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

One comment

  1. As earlier I have stated in one of my comments that Pakistani leaders are doing all this propaganda only to divert the attention of their from their day today issues faced by them. they have created such a Indophobia that really forget their genuin problems.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *